رنگ میلا نہ ہوا جامۂ عریانی کا
Appearance
رنگ میلا نہ ہوا جامۂ عریانی کا
سر و ساماں ہے ہمیں بے سر و سامانی کا
آئینہ دیکھے ہے وہ اور اسے آئینہ
زور عالم ہے دلا عالم حیرانی کا
دم ہستی پہ حباب اپنی عبث ابھرے تھا
آنکھ کھلتے ہی مقام اس پہ کھلا فانی کا
تشنگی خاک بجھے اشک کی طغیانی سے
عین برسات میں بگڑے ہے مزا پانی کا
زلف گر کھینچ سکے یار کے تو شانے سے
ہاتھ یک دست قلم کیجئے گا مانیؔ کا
جھڑ گئی ابر بہاری کی بھی شیخی لیکن
نہ گھٹا زور مرے اشک کی طغیانی کا
اے جنوں روز رہے ہے مرے دامن سے لگا
ہوں قدم بوس نہ کیوں خار بیابانی کا
کیوں نہ انگشت نما ہووے ہلال ابرو
زور عالم ہے ترے قشقۂ پیشانی کا
دل نہ چھٹ زلف بتاں چشم کا باندھے ہے خیال
یاد مضموں ہے پریشاں کو پریشانی کا
جام و مینا جو بنے آبلہ و داغ نصیرؔ
دل نے سامان کیا کس کی یہ مہمانی کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |