جگر کا جوں شمع کاش یارب ہو داغ روشن مراد حاصل
Appearance
جگر کا جوں شمع کاش یارب ہو داغ روشن مراد حاصل
کہ دل کو لو لگ رہی یہی ہے چراغ روشن مراد حاصل
مدام کیفیت اپنے دل میں مئے محبت کے نشے کی ہے
کہ ساقی اس آفتاب سے ہے دماغ روشن مراد حاصل
اسیر کنج قفس تو ہو تم یہ عندلیبو سدا یہ بولو
شتاب یارب چراغ گل سے ہو باغ روشن مراد حاصل
لگے نہ کیوں آگ تیرے سر سے کہ عشق میں میں نے پاؤں رکھا
بجا ہے اے شمع تجھ کو کہنا دماغ روشن مراد حاصل
جو یار آتا ہے میرے گھر میں تو جلد خانہ خراب اڑ جا
جہاں میں تیرا شگوں یہ سب پر ہے زاغ روشن مراد حاصل
پھرے ہے اے چرخ تو تو باندھے شکم پہ خورشید کا یہ گردہ
کہے نہ کیوں کر کہ گرسنہ ہو چراغ روشن مراد حاصل
جہاں میں کیا ڈھونڈھتا پھرے ہے سراغ یاران رفتگاں کا
نصیرؔ ہے چشم نقش پا سے سراغ روشن مراد حاصل
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |