مل بیٹھنے یہ دے ہے فلک ایک دم کہاں
Appearance
مل بیٹھنے یہ دے ہے فلک ایک دم کہاں
کیا جانے تم کہاں ہو کوئی دم کو ہم کہاں
کوچے سے تیرے اٹھ کے بھلا جائیں ہم کہاں
جز نقش پا ہے رہبر ملک عدم کہاں
دامن کشاں پھرے ہے مری خاک سے ہنوز
رکھتا ہے آہ وہ سر مرقد قدم کہاں
اس کے صف مژہ سے لڑاوے نشان آہ
اے فوج اشک جائے ہے لے کر علم کہاں
میرا ہی لخت دل ہے کہ ہمراہ اشک ہے
ورنہ رہے ہے آب سے آتش بہم کہاں
سب سے جدا ترے خط ریحاں کی شان ہے
اس خط کو لکھ سکے ہے زمرد رقم کہاں
منہ دیکھوں جو کرے ید قدرت سے ہم سری
ایسی صفائی ہاتھ کی اور یہ قلم کہاں
کیوں کر نہ سقف چرخ کہن تھم رہے نصیرؔ
میرے ستون آہ چھٹ اس میں ہے تھم کہاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |