جو عین وصل میں آرام سے نہیں واقف
Appearance
جو عین وصل میں آرام سے نہیں واقف
وہ مطلب دل خود کام سے نہیں واقف
ہنسا چمن میں جو دل دیکھ صورت صیاد
یہ مرغ دانے سے اور دام سے نہیں واقف
تمام شہر میں جس کے لیے ہوئے بد نام
وہ اب تلک بھی مرے نام سے نہیں واقف
ہر ایک عشق کے کب قاعدے سے محرم ہے
ہنوز شیخ الف لام سے نہیں واقف
ہزار حیف یہاں چھت سے لگ گئیں آنکھیں
وہاں وہ شوخ لب بام سے نہیں واقف
دلا عبث طلب بوسہ ہے تجھے اس سے
وہ لعل لب کہ لب جام سے نہیں واقف
سجی ہے لیک اسے زر کلاہ گزری کی
فقیر اطلس و پیلام سے نہیں واقف
تپش سے دل کی خبر ہووے ہے یہاں معلوم
میں طرز نامہ و پیغام سے نہیں واقف
نہ خوش وصال میں ہو رکھ تو یاد ہجر نصیرؔ
مگر تو گردش ایام سے نہیں واقف
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |