میں ضعف سے جوں نقش قدم اٹھ نہیں سکتا
میں ضعف سے جوں نقش قدم اٹھ نہیں سکتا
بیٹھا ہوں سر خاک پہ جم اٹھ نہیں سکتا
اے اشک رواں ساتھ لے اب آہ جگر کو
عاشق کہیں بے فوج و علم اٹھ نہیں سکتا
سقف فلک کہنہ میں کیا خاک لگاؤں
اے ضعف دل اس آہ کا تھم اٹھ نہیں سکتا
سر معرکۂ عشق میں آساں نہیں دینا
گاڑے ہے جہاں شمع قدم اٹھ نہیں سکتا
ہے جنبش مژگاں کا کسی کے جو تصور
دل سے خلش خار الم اٹھ نہیں سکتا
دل پر ہے مرے خیمہ ہر آبلہ اسناد
کیا کیجئے کہ یہ لشکر غم اٹھ نہیں سکتا
ہر جا متجلیٰ ہے وہ بر پردۂ غفلت
اے معتکف دیر و حرم اٹھ نہیں سکتا
یوں اشک زمیں پر ہیں کہ منزل کو پہنچ کر
جوں قافلۂ ملک عدم اٹھ نہیں سکتا
رو رو کے لکھا خط جو اسے میں نے تو بولا
اک حرف سر کاغذ نم اٹھ نہیں سکتا
ہر دم لب فوارہ سے جاری یہ سخن ہے
پانی نہ ذرا جس میں ہو دم اٹھ نہیں سکتا
میں اٹھ کے کدھر جاؤں ٹھکانا نہیں کوئی
میرا ترے کوچے سے قدم اٹھ نہیں سکتا
مہندی تو سراسر نہیں پاؤں میں لگی ہے
تو بہر عیادت جو صنم اٹھ نہیں سکتا
بیمار ترا صورت تصویر نہالی
بستر سے ترے سر کی قسم اٹھ نہیں سکتا
میں شاہ سوار آج ہوں میدان سخن میں
رستم کا مرے آگے قدم اٹھ نہیں سکتا
کیا نیزہ ہلاوے گا کوئی اب کہ کسی سے
یاں توسن رہوار قلم اٹھ نہیں سکتا
جوں غنچہ نصیرؔ اس بت گل رو کی جو ہے یاد
یاں سر ہو گریباں سے بہم اٹھ نہیں سکتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |