نہ ذکر آشنا نے قصۂ بیگانہ رکھتے ہیں
نہ ذکر آشنا نے قصۂ بیگانہ رکھتے ہیں
حدیث یار رکھتے ہیں یہی افسانہ رکھتے ہیں
چمن میں سرو قد گر جلوۂ مستانہ رکھتے ہیں
برنگ طوق قمری ہم خط پیمانہ رکھتے ہیں
خیال آنکھوں کا تیری جبکہ اے جانانہ رکھتے ہیں
تو جوں نرگس ہر اک انگشت بر پیمانہ رکھتے ہیں
نمایاں زلف کے حلقے میں کر ٹک خال عارض کو
کہ ہیں صیاد جتنے دام میں وہ دانہ رکھتے ہیں
بجز آئینہ معشوقوں کی کب ہو زلف پردازی
کہ عکس پنجۂ مژگاں سے دست شانہ رکھتے ہیں
بجائے حلقۂ کاکل ہیں خال روئے صید افگن
بہ چشم دام جائے مردمک یاں دانہ رکھتے ہیں
بسان چوب و نقارا ہیں خار و آبلہ پائی
بہ وادیٔ جنوں انگیز نوبت خانہ رکھتے ہیں
نہیں اشک مسلسل یہ گریباں گیر اے ساقی
گلے میں اپنے عاشق سبحۂ صد دانہ رکھتے ہیں
صدائے آشنائی مثل ہمدم ہو سو وہ جانے
کہ مثل بانسری انگشت بر ہر خانہ رکھتے ہیں
نہ الجھو اس قدر بے وجہ سلجھانے میں زلفوں کے
دل صد چاک تو ہم بھی برنگ شانہ رکھتے ہیں
دل اپنا کیوں نہ ہو بحر جہاں میں جوں گہر کالا
تلاش آب ہے ہم کو نہ فکر دانہ رکھتے ہیں
نہ کیوں کر بزم میں روشن ہو اپنی شب یہ دل سوزی
کہ الفت شمع رو سے ہم بھی جوں پروانہ رکھتے ہیں
بہار آئی ہے اب تو اے جنوں ہو سلسلہ جنباں
کہ ہم مدت سے قصد رفتن ویرانہ رکھتے ہیں
نگہ ٹک ابرو و چشم بتاں پر کیجیو زاہد
کہ یہ محراب مسجد کے تلے مے خانہ رکھتے ہیں
بٹھائیں سرو و شمشاد اپنے سر پر کیوں نہ قمری کو
ترے قد کے ہیں بندے وضع آزادانہ رکھتے ہیں
ٹھکانا کچھ نہ پوچھو ہم سے تم خانہ بدوشوں کا
جہاں جوں بوئے گل ٹھہرے وہیں کاشانہ رکھتے ہیں
ہمیں مت چھیڑ کر دیکھو رلاؤ اور جلاؤ تم
کہ طوفاں چشم میں سینے میں آتش خانہ رکھتے ہیں
کریں گے بیعت دست سبو پیر مغاں تجھ سے
کہ شوق شرب مے ہے مشرب رندانہ رکھتے ہیں
نصیرؔ اب ہم کو کیا ہے قصۂ کونین سے مطلب
کہ چشم پر فسون یار کا افسانہ رکھتے ہیں
نصیرؔ اس شوخ سے کہنا کہ پیش چشم حیرت میں
تصور روز و شب تیرا ہم اے جانانہ رکھتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |