طلب میں بوسے کی کیا ہے حجت سوال دیگر جواب دیگر
Appearance
طلب میں بوسے کی کیا ہے حجت سوال دیگر جواب دیگر
سمجھ کے کہہ بات بے مروت سوال دیگر جواب دیگر
کلام تجھ سے ہے اور اپنا سخن کو ہم تیرے کیونکہ جانیں
ذرا یہ کھلتی نہیں حقیقت سوال دیگر جواب دیگر
میں اپنے مطلب کی کہہ رہا ہوں وہ آئنہ رو اک عیب میں ہے
بھلا ہو ملنے کی خاک صورت سوال دیگر جواب دیگر
اگر کہوں میں سنوارو زلفیں تو وہ بگڑتے ہیں دے کے گالی
عجب نصیبوں کی کچھ ہے شامت سوال دیگر جواب دیگر
مرا تو پیغام وصل کا ہے تمہاری تقریر ہجر کی ہے
بتاں ہے یہ بھی خدا کی قدرت سوال دیگر جواب دیگر
کہا جو میں نے کہ دو مرا دل تو بولے ہنس کر کدھر ہے دلی
کہوں تو کیا اور ان کو رحمت سوال دیگر جواب دیگر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |