جوں ذرہ نہیں ایک جگہ خاک نشیں ہم
Appearance
جوں ذرہ نہیں ایک جگہ خاک نشیں ہم
اے مہر جہاں تاب جہاں تو ہے وہیں ہم
شب حلقۂ رنداں میں عجب سیر تھی ساقی
ساغر کو سمجھتے تھے مہ ہالا نشیں ہم
سیتے ہیں سدا رشک اتوے قلمی دیکھ
ہر تار سرشک اپنے سے دامان زمیں ہم
اے رشک نسیم سحری کیوں ہے مکدر
گلشن میں تجھے دیکھتے ہیں چیں بہ جبیں ہم
برپا نہ کہیں کیجے اب شور قیامت
وحشت زدہ اے خانۂ زنجیر نہیں ہم
سر رشتہ رہ عشق کا اب ہاتھ لگا ہے
جوں دانۂ تسبیح نہ ٹھہریں گے کہیں ہم
لے کر مہ و خورشید کی پھر تیغ و سپر کو
اے چرخ تجھے جانتے ہیں بر سر کیں ہم
یک دست اٹھا لیویں گے اس صفحۂ دل پر
نقش قدم یار کو جوں نقش و نگیں ہم
عیسیٰ نفس اب جلد پہنچ تو کہ ہیں تجھ بن
مہمان کوئی دم کے دم باز پسیں ہم
کھو بیٹھے ہیں اس عشق کے ہاتھوں سے نصیرؔ اب
ہوش و خرد و صبر و قرار و دل و دیں ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |