گو سیہ بخت ہوں پر یار لبھا لیتا ہے
گو سیہ بخت ہوں پر یار لبھا لیتا ہے
شکل سایہ کے مجھے ساتھ لگا لیتا ہے
گو ملاقات نہیں عالم بیداری میں
خواب میں پر وہ ہمیں ساتھ سلا لیتا ہے
اشک کو ٹک بن مژگاں میں ٹھہرنے دے دلا
یہ ترا دیکھ تو ہاں دیکھ تو کیا لیتا ہے
راہیٔ ملک عدم سے نہ کر اتنی کاوش
دم مسافر یہ تہ نخل ذرا لیتا ہے
شیشۂ دل میں مرے تیرے خیال خط سے
آ گیا بال ہے تو مول اسے کیا لیتا ہے
یہ مثل اے بت مے نوش سنی ہے کہ نہیں
لے ہے برتن جو کوئی اس کو بجا لیتا ہے
تو وہ ہے نام خدا اے بت کافر کہ ترے
زاہد گوشہ نشیں بھی قدم آ لیتا ہے
دل پہ تلوار سی کچھ لگتی ہے جب غیر کو تو
پاس ابرو کے اشارے سے بلا لیتا ہے
کیوں نہ پھولے دل صد چاک ہمارا یارو
گل سمجھ کر وہ اسے سر پہ چڑھا لیتا ہے
موج دریا تو کب اٹکھیلی سے یوں چلتی ہے
پر تری کبک دری چال اڑا لیتا ہے
زلف مشکیں کو نہ چھیڑ اس کی دلا مان کہا
اپنے کیوں سر پہ بلا اہل خطا لیتا ہے
ہوک سی اٹھتی ہے کچھ دل میں مرے آہ نصیرؔ
جب وہ پہلو میں رقیبوں کو بٹھا لیتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |