دل میں ہے کیا جانئے کس کا خیال نقش پا
Appearance
دل میں ہے کیا جانئے کس کا خیال نقش پا
لگ گئیں آنکھیں زمیں سے جو مثال نقش پا
طاقت اٹھنے کی نہیں ہے تن میں ضعف عشق سے
حال اپنا ان دنوں ہے حسب حال نقش پا
صفحۂ صحرا میں ہے خار مغیلاں جوں الف
خوب اے مجنوں تری آئی ہے فال نقش پا
یک قلم اے گل بدن رشک گل قالیں ہے دیکھ
فرش خاکستر ہے تیرا یہ نہال نقش پا
در فشانی سے تری رہتا ہے ہم چشم صدف
تھا یہی اے چشم تر تجھ سے سوال نقش پا
ٹکٹکی یاں تک بندھی ہے گی کہ خال مردمک
بن گیا اس شوخ کا ہر وجہ خال نقش پا
سوجھتا ہے ہاتھ سے اس ناتوانی کے نصیرؔ
رفتہ رفتہ ہوں گے اک دن پائمال نقش پا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |