شمیم زلف معنبر جو روئے یار سے لوں
شمیم زلف معنبر جو روئے یار سے لوں
تو پھر خطا ہے مری مشک گر تتار سے لوں
قدم رکھے مرے سینے پہ آ کے گر وہ نگار
حنا کا کام میں خون دل فگار سے لوں
اگر ملے ترے ہاتھوں سے اے جنوں فرصت
قصاص آبلہ پائی میں نوک خار سے لوں
مرے حضور یہ لوٹے ہے تیری چھاتی پر
جو پہنچے ہاتھ تو بدلا گلوں کے ہار سے لوں
دلا بجے کہیں گھڑیال تا میں گھڑیوں کا
حساب اس شب ہجر سیاہ کار سے لوں
عجب ہے سیر کسی دن تو ساتھ باغ میں چل
کہاں تلک میں قدم عجز و انکسار سے لوں
پٹاپٹی کا مرے پاس گر نہ ہو خیمہ
تو یار تیرے لیے ابر نو بہار سے لوں
جو مے کشی کا ارادہ ہو کچھ ترے دل میں
چمن میں ساغر گل دست شاخسار سے لوں
اگر صراحی غنچہ میں ہو نہ بادۂ سرخ
تو شیشۂ مے خس سرو جوئبار سے لوں
نہ ہووے مطرب نغمہ سرا تو اس کا کام
قسم ہے مجھ کو تری عندلیب زار سے لوں
لگے نہ ہاتھ کوئی گر رباب و چنگ نواز
تو اپنے دوش پہ رکھ بین کو میں تار سے لوں
یہ جی میں ہو کہ نہ دیکھے کوئی تو پردے کو
کنار آب رواں چادر آبشار سے لوں
بلائیں لینے سے میرے اگر خوشی ہو تری
بلائیں مہر سے اخلاص سے پیار سے لوں
گر اس پہ بھی گل عارض کا تو نہ دے بوسہ
تو پھر میں جبر کروں اپنے اختیار سے لوں
نصیرؔ مدرسۂ عشق میں مطول کا
سبق نہ کیونکہ میں زلف دراز یار سے لوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |