زلف چھٹتی ترے رخ پر تو دل اپنا پھرتا
زلف چھٹتی ترے رخ پر تو دل اپنا پھرتا
گھر کو بے شام نہیں صبح کا بھولا پھرتا
دیکھنے کو جو مرا تو نہ تماشا پھرتا
تو میں جوں شعلۂ جوالہ نہ چلتا پھرتا
کب جفاؤں سے تری دل ہے ہمارا پھرتا
شک اگر تجھ کو ہے ظالم تو دوبارہ پھرتا
بخت برگشتۂ مجنوں ابھی سیدھے ہو جائیں
دشت میں آئے اگر ناقۂ لیلیٰ پھرتا
گردش چرخ سے سر کیوں نہ مہ و خور کا پھرے
کہ شب و روز یہ رہتا ہے ہنڈولا پھرتا
جنس دل کا تری اس زلف سے پھرنا معلوم
ہو کے خط کش جو بکے وہ نہیں سودا پھرتا
خال رخسار بتاں کا نہیں بھرتا یہ خیال
کشور دل میں ہمارے ہے کنھیا پھرتا
دل کی قسمت میں ازل سے تھی لکھی تشنہ لبی
کیوں نہ اس چاہ ذقن سے یہ پیاسا پھرتا
شرم سے دامن ساحل میں چھپی ہے ہر موج
تو جو اٹھکھیلیوں سے ہے لب دریا پھرتا
درد دل عشق کی چوسر میں نہ کٹتی ہرگز
گر کبھی جیت کا اپنی کوئی پاسا پھرتا
آج پیری میں بھی اپنے نہ پھرے بخت سیاہ
کہ درختوں کا بھی دن ڈھلتے ہی سایا پھرتا
ٹوٹ جاتی جو کبھی آس ترے ملنے کی
تو نہ لٹو کی طرح دل یہ ہمارا پھرتا
باعث جنبش انساں ہے تو اے تار نفس
ورنہ یہ بیٹھ کے اٹھتا نہ یہ چلتا پھرتا
سیر صحرائے جنوں خیز کا ارماں نہ رہا
تیرے ہاتھوں سے میں کیا آبلۂ پا پھرتا
تو نے ہر کام پہ کی چشم نمائی ورنہ
میں بگولے کی طرح خاک اڑاتا پھرتا
اپنے گریے کی دکھاتا میں تجھے طغیانی
گر شب وصل مرے پاس نہ تو آ پھرتا
انجم چرخ بھی بن جاتے ہیں مانند حباب
ماہ کا صورت گرداب ہے بالا پھرتا
لکھ نصیرؔ ایک غزل اور بدل کر کے ردیف
توسن خامہ ہے اب دیکھ تو کیسا پھرتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |