دل کو کس صورت سے کیجے چشم دلبر سے جدا
دل کو کس صورت سے کیجے چشم دلبر سے جدا
شیشۂ مے کو نہیں رکھتے ہیں ساغر سے جدا
میں تو ہوں اے طالع برگشتہ دلبر سے جدا
اور پتھر آسیا کا ہو نہ پتھر سے جدا
اس کے بحر حسن میں مت چھوڑ اے دل تار زلف
غرق ہو جاتی ہے کشتی ہو کے لنگر سے جدا
عشق میں شیریں کے تو نے جان شیریں دی ہے آہ
نقش تیرا کوہ کن ہو کیوں کہ پتھر سے جدا
چشم یہ تجھ سے ہے یارب تا نہ ہو لیل و نہار
چشم اس پردہ نشیں کے رخنۂ در سے جدا
کندہ اس میرے نگین دل پہ تیرا نام ہے
اس کو اپنے خاتم دل کے نہ کر گھر سے جدا
اس کو کہتے ہیں محبت شیشۂ ساعت کو دیکھ
ایک کے ہوتا نہیں ہے دوسرا بر سے جدا
وہ ادھر خنداں ہے میں گریاں ادھر حیرت ہے یہ
برق چمکے ابر گرجے اور مینہ برسے جدا
صورت بادام توام روز و شب ہوتا نہیں
چشم دلبر کا تصور چشم کے گھر سے جدا
سوزن بے رشتہ آتی ہے کسی کو کب نظر
تو نہ ہو اے آہ دل اس جسم لاغر سے جدا
پردۂ مینا سے ساقی دخت رز نکلے ہے کیوں
آفتاب خاوری ہوتا ہے خاور سے جدا
اس کی مژگاں سے چھڑاؤں دل کو کس صورت سے میں
پنجۂ شاہیں نہیں ہوتا کبوتر سے جدا
تاب اس چمپا کلی کی یوں ہے تکمے کے تلے
جوں کرن چمکے ہے ہو کر مہر انور سے جدا
اشک چشم تر کو رہنے دوں تہ مژگاں نہ کیوں
طفل کو کرتے نہیں دامان مادر سے جدا
اس زمیں میں لکھ غزل اک اور پر معنی نصیرؔ
رنگ یعنی ہو نہیں سکتا گل تر سے جدا
اس غزل کو سن کے خاقانیؔ کرے وجد اے نصیرؔ
انوریؔ بھی سر کو اپنے پٹکے پتھر سے جدا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |