یارو نہیں اتنا مجھے قاتل نے ستایا
یارو نہیں اتنا مجھے قاتل نے ستایا
جتنا کہ مرے دشمن جاں دل نے ستایا
کچھ سرزنش کار کا شاکی وہ نہیں ہے
مجنوں کو تو ہے صاحب محمل نے ستایا
غنچہ کہوں یا درج گہر تیرے دہن کو
کھلنا نہیں اس عقدۂ مشکل نے ستایا
آرام سے سویا نہ کمر کا تری کشتہ
مرقد میں بھی موران تہہ گل نے ستایا
اس کا مجھے شب یاد دلایا رخ پر نور
شکل اپنی دکھا کر مہ کامل نے ستایا
میرا دل سودا زدہ کرتا نہ کبھی غل
اس کاکل پیچاں کے سلاسل نے ستایا
افیوں کی کسی روز میں کھا جاؤں گا گولی
بے وجہ رخ یار کے گر تل نے ستایا
جب بوسہ میں مانگوں ہوں تو کیا کہتے ہو منہ پھیر
ایسا تو کسی بھی نہیں سائل نے ستایا
ہر جا متجلی ہے وہ بے پردہ ولیکن
غفلت کے مجھے پردۂ حائل نے ستایا
تھا ایک تو صیاد گرفتار قفس میں
اور دوسرے آواز عنادل نے ستایا
اے ہم سفراں پیش روی کی نہیں طاقت
کیا کیجے ہمیں دورئ منزل نے ستایا
پہلو میں نصیرؔ آہ نہیں ہے دل مضطر
اس شعر غم آلودۂ بے دل نے ستایا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |