اس کاکل پر خم کا خلل جائے تو اچھا
اس کاکل پر خم کا خلل جائے تو اچھا
دل سر سے بلا تیرے یہ ٹل جائے تو اچھا
بوسے کا سوال اس سے کروں ہوں تو کہے ہے
چل رے مرے کچھ منہ سے نکل جائے تو اچھا
اثبات نہ ہو دعوئ خوں اس پہ الٰہی
صورت مرے قاتل کی بدل جائے تو اچھا
لے سر پے وبال اپنے پتنگوں کا نہ اے شمع
تو اور بھی جوبن سے جو ڈھل جائے تو اچھا
ڈسنے کو مرا دل ہے تری زلف کی ناگن
طاؤس خط اس کو جو نگل جائے تو اچھا
ہم چشمی تیری چشم سے کرتا ہے یہ بادام
اس کو کوئی پتھر سے کچل جائے تو اچھا
زلفوں کے تصرف میں ہے بے وجہ رخ یار
کفار کا کعبہ سے عمل جائے تو اچھا
خوں ہو کے رواں دل ہو گر آنکھوں سے تو بہتر
یا عشق کی آتش میں یہ جل جائے تو اچھا
لب پر سے بلاق اپنی دم بوسہ اٹھا دو
اندیشۂ زنبور عسل جائے تو اچھا
پہلو سے نکل جائے اگر دل تو بلا سے
تو چھوڑ کے خالی نہ بغل جائے تو اچھا
کہتے ہیں نصیرؔ اپنی نہ تم آہ کو روکو
یہ تیر نشانے پہ جو چل جائے تو اچھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |