قدم نہ رکھ مری چشم پرآب کے گھر میں
Appearance
قدم نہ رکھ مری چشم پرآب کے گھر میں
بھرا ہے موج کا طوفاں حباب کے گھر میں
کہے ہے دیکھ کے وہ عکس رخ بساغر مے
نزول ماہ ہوا آفتاب کے گھر میں
مدام رند کریں کیوں نہ آستاں بوسی
حرم ہے شیخ مشیخت مآب کے گھر میں
ہمارے دل میں کہاں آبلے ہیں اے ساقی
چنے ہوئے ہیں یہ شیشے شراب کے گھر میں
تڑپ کو دیکھ مرے دل کی برق آتش بار
خجل ہو چھپ گئی آخر سحاب کے گھر میں
دلا نہ کیونکے کروں اختلاط کی باتیں
حجاب کیا ہے اب اس بے حجاب کے گھر میں
نصیرؔ دیکھ تو کیا جلوۂ خدائی ہے
ہمارے اس بت خانہ خراب کے گھر میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |