دکھا دو گر مانگ اپنی شب کو تو حشر برپا ہو کہکشاں پر
دکھا دو گر مانگ اپنی شب کو تو حشر برپا ہو کہکشاں پر
چنو جبیں پر کبھی جو افشاں تو نکلیں تارے نہ آسماں پر
نہیں ہیں شبنم کے صبح قطرے یہ برگ گلہائے بوستاں پر
بیاد آتش رخاں پھپھولے پڑے ہیں ہر پھول کی زباں پر
کہاں سر شمع پر ہے شعلہ نگاہ ٹک کیجے شمع داں پر
کہ استخواں ہے غذا ہماری ہما یہ بیٹھا ہے استخواں پر
اسیر نو کی خبر لے آ کر ذرا تو صیاد ظلم پیشہ
یہاں تلک ہوں قفس میں تڑپا کہ میرے سارے ہیں دھجیاں پر
ہمارے اس روئے زرد پر جو سرشک افشاں ہے ابر مژگاں
نہ دیکھی لالی کبھی برستی کسی نے یوں کشت زعفراں پر
کوئی غریبوں کے مارنے سے ہوا بندھی ہے کسی کی ظالم
اگر سلیمان وقت ہے تو قدم نہ رکھ مور ناتواں پر
بنا کے آئینہ صاف اس کو کیا ہے حسن ادا سے واقف
الٰہی آئینہ ساز کی اب شتاب پتھر پڑے زباں پر
جہاں میں اس کے شہید کا ہو نہ کیونکہ رتبہ بلند یارو
یہی ہے معراج عاشقوں کی جو سر ہو بعد از فنا سناں پر
کرے چمن میں نہ کیونکہ برپا ترا یہ بوٹا سا قد قیامت
نثار آنکھوں پہ کیا ہے نرگس کہ غنچہ قربان ہے دہاں پر
رہی ہے بزم جہاں میں منعم سدا بلندی کے ساتھ پستی
بسان فوارہ قصد مت کر زمیں سے جانے کا آسماں پر
سفر عدم کا کہاں کرے ہے یہ بحر ہستی سے ایک دم میں
حباب چشمک زنی کرے ہے خضر تری عمر جاوداں پر
امید کیا چرخ سفلہ پرور ہمیں ہو اب تجھ سے ایک ناں کی
کہ تیرے ہاتھوں سے ماہ نو نے یہاں قناعت کی نیم ناں پر
نصیرؔ کہتے تو سب یہاں ہیں کہ اس کے عاشق ہیں ہم ولیکن
بڑا ستم ہو بڑا غضب ہو اگر وہ آ جائے امتحاں پر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |