الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ
Appearance
الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ
بے طاقتی کے طعنے ہیں عذر جفا کے ساتھ
بہر عیادت آئے وہ لیکن قضا کے ساتھ
دم ہی نکل گیا مرا آواز پا کے ساتھ
بے پردہ غیر پاس اسے بیٹھا نہ دیکھتے
اٹھ جاتے کاش ہم بھی جہاں سے حیا کے ساتھ
وہ لالہ رو گیا نہ ہو گلگشت باغ کو
کچھ رنگ بوئے گل کے عوض ہے صبا کے ساتھ
اس کی گلی کہاں یہ تو کچھ باغ خلد ہے
کس جاے مجھ کو چھوڑ گئی موت لا کے ساتھ
آتی ہے بوئے داغ شب تار ہجر میں
سینہ بھی چاک ہو نہ گیا ہو قبا کے ساتھ
گلبانگ کس کا مشورۂ قتل ہو گیا
کچھ آج بوئے خوں ہے وہاں کی ہوا کے ساتھ
تھے وعدے سے پھر آنے کے خوش یہ خبر نہ تھی
ہے اپنی زندگانی اسی بے وفا کے ساتھ
کوچہ سے اپنے غیر کا منہ ہے مٹا سکے
عاشق کا سر لگا ہے ترے نقش پا کے ساتھ
اللہ رے گمرہی بت و بت خانہ چھوڑ کر
مومنؔ چلا ہے کعبے کو اک پارسا کے ساتھ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |