Author:مومن خان مومن
Appearance
مومن خان مومن (1800 - 1852) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- آگ اشک گرم کو لگے جی کیا ہی جل گیا
- تاثیر صبر میں نہ اثر اضطراب میں
- وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
- اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
- آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو
- رویا کریں گے آپ بھی پہروں اسی طرح
- دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہوں گے
- ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
- ڈر تو مجھے کس کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
- وہ کہاں ساتھ سلاتے ہیں مجھے
- قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق
- غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
- اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
- محشر میں پاس کیوں دم فریاد آ گیا
- عدم میں رہتے تو شاد رہتے اسے بھی فکر ستم نہ ہوتا
- اے آرزوئے قتل ذرا دل کو تھامنا
- غصہ بیگانہ وار ہونا تھا
- دل قابل محبت جاناں نہیں رہا
- کرتا ہے قتل عام وہ اغیار کے لیے
- دل بستگی سی ہے کسی زلف دوتا کے ساتھ
- مومنؔ خدا کے واسطے ایسا مکاں نہ چھوڑ
- اس وسعت کلام سے جی تنگ آ گیا
- چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ
- دیدۂ حیراں نے تماشا کیا
- وعدۂ وصلت سے دل ہو شاد کیا
- نہ انتظار میں یاں آنکھ ایک آن لگی
- اعجاز جاں دہی ہے ہمارے کلام کو
- یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا
- ہے دل میں غبار اس کے گھر اپنا نہ کریں گے
- الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ
- آگ اشک گرم کو لگے جی کیا ہی جل گیا
- صبر وحشت اثر نہ ہو جائے
- تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب
- دل میں اس شوخ کے جو راہ نہ کی
- ہم سمجھتے ہیں آزمانے کو
- جلتا ہوں ہجر شاہد و یاد شراب میں
- تم بھی رہنے لگے خفا صاحب
- جوں نکہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا
- امتحاں کے لیے جفا کب تک
- شوخ کہتا ہے بے حیا جانا
- میں اگر آپ سے جاؤں تو قرار آ جائے
- ہو نہ بیتاب ادا تمہاری آج
- شب تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے
- دیکھ لو شوق نا تمام مرا
- ہم رنگ لاغری سے ہوں گل کی شمیم کا
- ہوئی تاثیر آہ و زاری کی
- راز نہاں زبان اغیار تک نہ پہنچا
- لگے خدنگ جب اس نالۂ سحر کا سا
- گر غیر کے گھر سے نہ دل آرام نکلتا
- وعدے کی جو ساعت دم کشتن ہے ہمارا
- سودا تھا بلائے جوش پر رات
- تا نہ پڑے خلل کہیں آپ کے خواب ناز میں
- جو تیرے منہ سے نہ ہو شرمسار آئینہ
رباعی
[edit]- مومن یہ اثر سیاہ مستی کا نہ ہو
- کیوں زرد ہے رنگ کس لیے آنسو لال
- ہے شرم گنہ سے جاں کیسی بے تاب
- افسوس شکایت نہانی نہ گئی
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |