راز نہاں زبان اغیار تک نہ پہنچا
Appearance
راز نہاں زبان اغیار تک نہ پہنچا
کیا ایک بھی ہمارا خط یار تک نہ پہنچا
اللہ رے نا توانی جب شدت قلق میں
بالیں سے سر اٹھایا دیوار تک نہ پہنچا
روتے تو رحم آتا سو اس کے روبرو تو
اک قطرہ خوں بھی چشم خوں بار تک نہ پہنچا
عاشق سے مت بیاں کر قتل عدو کا مژدہ
پیغام مرگ ہے یہ بیمار تک نہ پہنچا
بے بخت رنگ خوبی کس کام کا کہ میں تو
تھا گل ولے کسی کی دستار تک نہ پہنچا
مفت اول سخن میں عاشق نے جان دے دی
قاصد بیان تیرا اقرار تک نہ پہنچا
تھی خار راہ تیری مژگاں کی یاد پھر شب
تا صبح خواب چشم بیدار تک نہ پہنچا
بخت رسا عدو کے جو چاہے سو کہے اب
یک بار یار مجھ تک میں یار تک نہ پہنچا
غیروں سے اس نے ہرگز چھوڑی نہ ہاتھاپائی
جب تک اجل کا صدمہ دو چار تک نہ پہنچا
مومنؔ اسی نے مجھ سے دی برتری کسی کو
جو پست فہم میرے اشعار تک نہ پہنچا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |