سودا تھا بلائے جوش پر رات
Appearance
سودا تھا بلائے جوش پر رات
بستر پر بچھائے نشتر رات
بگڑے تھے یہاں وہ آن کر رات
بے طور بنی تھی جان پر رات
ہم تا سحر آپ میں نہیں تھے
کیا جانے رہے وہ کس کے گھر رات
افسانہ سمجھ کے سو گئے وہ
کام آئی فغان بے اثر رات
آئینے میں ہو نہ موم جادو
سوتے نہیں اب وہ تا سحر رات
تارے آنکھیں جھپک رہے تھے
تھا بام پہ کون جلوہ گر رات
اندھیرا پڑا زمانے میں ہائے
نے دن کو ہے مہر نے قمر رات
اس لیل و نہار غم نے مارا
ہے روز سے سیاہ تر رات
کیا پوچھو ہو منکر و نکیر آہ
بگڑے جو وہ طعن غیر پر رات
یہ بات بڑھی کہ مر گئے ہم
موت آئی تھی قصہ مختصر رات
اس گھر میں ہے عیش خلد مومنؔ
کیا جانے کہاں ہے دن کدھر رات
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |