وہ کہاں ساتھ سلاتے ہیں مجھے
وہ کہاں ساتھ سلاتے ہیں مجھے
خواب کیا کیا نظر آتے ہیں مجھے
اس پری وش سے لگاتے ہیں مجھے
لوگ دیوانہ بناتے ہیں مجھے
یا رب ان کا بھی جنازہ اٹھے
یار اس کو سے اٹھاتے ہیں مجھے
ابروئے تیغ سے ایما ہے کہ آ
قتل کرنے کو بلاتے ہیں مجھے
بے وفائی کا عدو کی ہے گلہ
لطف میں بھی وہ ستاتے ہیں مجھے
حیرت حسن سے یہ شکل بنی
کہ وہ آئینہ دکھاتے ہیں مجھے
پھونک دے آتش دل داغ مرے
اس کی خو یاد دلاتے ہیں مجھے
گر کہے غمزہ کسے قتل کروں
تو اشارت سے بتاتے ہیں مجھے
میں تو اس زلف کی بو پر غش ہوں
چارہ گر مشک سونگھاتے ہیں مجھے
شعلہ رو کہتے ہیں اغیار کو وہ
اپنے نزدیک جلاتے ہیں مجھے
جاں گئی پر نہ گئی جورکشی
بعد مردن بھی دباتے ہیں مجھے
وہ جو کہتے ہیں تجھے آگ لگے
مژدۂ وصل سناتے ہیں مجھے
اب یہ صورت ہے کہ اے پردہ نشیں
تجھ سے احباب چھپاتے ہیں مجھے
مومنؔ اور دیر خدا خیر کرے
طور بے ڈھب نظر آتے ہیں مجھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |