دل بستگی سی ہے کسی زلف دوتا کے ساتھ
دل بستگی سی ہے کسی زلف دوتا کے ساتھ
پالا پڑا ہے ہم کو خدا کس بلا کے ساتھ
کب تک نبھائیے بت ناآشنا کے ساتھ
کیجے وفا کہاں تلک اس بے وفا کے ساتھ
یاد ہوائے یار نے کیا کیا نہ گل کھلائے
آئی چمن سے نکہت گل جب صبا کے ساتھ
مانگا کریں گے اب سے دعا ہجر یار کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ
ہے کس کا انتظار کہ خواب عدم سے بھی
ہر بار چونک پڑتے ہیں آواز پا کے ساتھ
یا رب وصال یار میں کیونکر ہو زندگی
نکلی ہی جان جاتی ہے ہر ہر ادا کے ساتھ
اللہ رے سوز آتش غم بعد مرگ بھی
اٹھتے ہیں میری خاک سے شعلے ہوا کے ساتھ
سو زندگی نثار کروں ایسی موت پر
یوں روئے زار زار تو اہل عزا کے ساتھ
ہر دم عرق عرق نگہ بے حجاب ہے
کس نے نگاہ گرم سے دیکھا حیا کے ساتھ
مرنے کے بعد بھی وہی آوارگی رہی
افسوس جاں گئی نفس نارسا کے ساتھ
دست جنوں نے میرا گریباں سمجھ لیا
الجھا ہے ان سے شوخ کے بند قبا کے ساتھ
آتے ہی تیرے چل دیئے سب ورنہ یاس کا
کیسا ہجوم تھا دل حسرت فزا کے ساتھ
میں کینے سے بھی خوش ہوں کہ سب یہ تو کہتے ہیں
اس فتنہ گر کو لاگ ہے اس مبتلا کے ساتھ
اللہ ری گمرہی بت و بت خانہ چھوڑ کر
مومنؔ چلا ہے کعبے کو اک پارسا کے ساتھ
مومنؔ وہی غزل پڑھو شب جس سے بزم میں
آتی تھی لب پہ جان زہ و حبذا کے ساتھ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |