کرتا ہے قتل عام وہ اغیار کے لیے
کرتا ہے قتل عام وہ اغیار کے لیے
دس بیس روز مرتے ہیں دو چار کے لیے
دیکھا عذاب رنج دل زار کے لیے
عاشق ہوئے ہیں وہ مرے آزار کے لیے
دل عشق تیرے نذر کیا جان کیونکہ دوں
رکھا ہے اس کو حسرت دیدار کے لیے
قتل اس نے جرم صبر جفا پر کیا مجھے
یہ ہی سزا تھی ایسے گنہ گار کے لیے
لے تو ہی بھیج دے کوئی پیغام تلخ اب
یہ تجویز زہر ہے ترے بیمار کے لیے
آتا نہیں ہے تو تو نشانی ہی بھیج دے
تسکین اضطراب دل زار کے لیے
کیا دل دیا تھا اس لیے میں نے تمہیں کہ تم
ہو جاؤ یوں عدو مرے اغیار کے لیے
چلنا تو دیکھنا کہ قیامت نے بھی قدم
طرز خرام و شوخی رفتار کے لیے
جی میں ہے موتیوں کی لڑی اس کو بھیج دوں
اظہار حال چشم گہربار کے لیے
دیتا ہوں اپنے لب کو بھی گلبرگ سے مثال
بوسے جو خواب میں ترے رخسار کے لیے
جینا امید وصل پہ ہجراں میں سہل تھا
مرتا ہوں زندگانی دشوار کے لیے
مومنؔ کو تو نہ لائے کہیں دام میں وہ بت
ڈھونڈے ہے تار سبحہ کے زنار کے لیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |