عدم میں رہتے تو شاد رہتے اسے بھی فکر ستم نہ ہوتا
عدم میں رہتے تو شاد رہتے اسے بھی فکر ستم نہ ہوتا
جو ہم نہ ہوتے تو دل نہ ہوتا جو دل نہ ہوتا تو غم نہ ہوتا
ہوئی خجالت سے نفرت افزوں گلے کیے خوب آخریں دم
وہ کاش اک دم ٹھہر کے آتے کہ میرے لب پر بھی دم نہ ہوتا
پڑا ہی مرنا بس اب تو ہم کو جو اس نے خط پڑھ کے نامہ بر سے
کہا کہ گر سچ یہ حال ہوتا تو دفتر اتنا رقم نہ ہوتا
کسی کے جلنے کا دھیان آیا وگرنہ دود فغاں سے میرے
اگر ہزاروں سپہر بنتے تمہاری آنکھوں میں نم نہ ہوتا
جو آپ در سے اٹھا نہ دیتے کہیں نہ کرتا میں جبہہ سائی
اگرچہ یہ سر نوشت میں تھا تمہارے سر کی قسم نہ ہوتا
وصال کو ہم ترس رہے تھے جو اب ہوا تو مزا نہ پایا
عدو کے مرنے کی جب خوشی تھی کہ اس کو رنج و الم نہ ہوتا
جہان تنگ و ہجوم وحشت غرض کہ دم پر بری بنی تھی
کہاں میں جاتا نہ جی ٹھہرتا کہیں جو دشت عدم نہ ہوتا
مگر رقیبوں نے سر اٹھایا کہ یہ نہ ہوتا تو بے مروت
نظر سے ظاہر حیا نہ ہوتی حیا سے گردن میں خم نہ ہوتا
وہاں ترقی جمال کو ہے یہاں محبت ہے روز افزوں
شریک زیبا تھا بوالہوس بھی جو بے وفائی میں کم نہ ہوتا
غلط کہ صانع کو ہو گوارا خراش انگشت ہائے نازک
جواب خط کی امید رکھتے جو قول جف القلم نہ ہوتا
یہ بے تکلف پھرا رہی ہے کشش دل عاشقاں کی اس کو
وگرنہ ایسی نزاکتوں پہ خرام ناز اک قدم نہ ہوتا
وصال تو ہے کہاں میسر مگر خیال وصال ہی میں
مزے اڑاتے ہوس نکلتی جو ساتھ انداز رم نہ ہوتا
ہوا مسلماں میں اور ڈر سے نہ درس واعظ کو سن کے مومنؔ
بنی تھی دوزخ بلا سے بنتی عذاب ہجر صنم نہ ہوتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |