دیدۂ حیراں نے تماشا کیا
دیدۂ حیراں نے تماشا کیا
دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا
ضبط فغاں گو کہ اثر تھا کیا
حوصلہ کیا کیا نہ کیا کیا کیا
آنکھ نہ لگنے سے شب احباب نے
آنکھ کے لگ جانے کا چرچا کیا
مر گئے اس کے لب جاں بخش پر
ہم نے علاج آپ ہی اپنا کیا
بجھ گئی اک آہ میں شمع حیات
مجھ کو دم سرد نے ٹھنڈا کیا
غیر عیادت سے برا مانتے
قتل کیا آن کے اچھا کیا
ان سے پری وش کو نہ دیکھے کوئی
مجھ کو مری شرم نے رسوا کیا
زندگیٔ ہجر بھی اک موت تھی
مرگ نے کیا کار مسیحا کیا
پان میں یہ رنگ کہاں آپ نے
آپ مرے خون کا دعویٰ کیا
جور کا شکوہ نہ کروں ظلم ہے
راز مرا صبر نے افشا کیا
کچھ بھی بن آتی نہیں کیا کیجیے
اس کے بگڑنے نے کچھ ایسا کیا
جائے تھی تیری مرے دل میں سو ہے
غیر سے کیوں شکوۂ بے جا کیا
رحم فلک اور مرے حال پر
تو نے کرم اے ستم آرا کیا
سچ ہی سہی آپ کا پیماں ولے
مرگ نے کب وعدۂ فردا کیا
دعویٔ تکلیف سے جلاد نے
روز جزا قتل پھر اپنا کیا
مرگ نے ہجراں میں چھپایا ہے منہ
لو منہ اسی پردہ نشیں کا کیا
دشمن مومنؔ ہی رہے بت سدا
مجھ سے مرے نام نے یہ کیا کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |