دل میں اس شوخ کے جو راہ نہ کی
دل میں اس شوخ کے جو راہ نہ کی
ہم نے بھی جان دی پر آہ نہ کی
پردہ پوشی ضرور تھی اے چرخ
کیوں شب بوالہوس سیاہ نہ کی
تشنہ لب ایسے ہم گرے مے پر
کہ کبھی سیر عید گاہ نہ کی
اس کو دشمن سے کیا بچئے وہ چرخ
جس نے تدبیر خسف ماہ نہ کی
کون ایسا کہ اس سے پوچھے کیوں
پرسش حال داد خواہ نہ کی
تھا بہت شوق وصل تو نے تو
کمی اے حسن تابگاہ نہ کی
عشق میں کام کچھ نہیں آتا
گر نہ کی حرص و مال و جاہ نہ کی
تاب کم ظرف کو کہاں تم نے
دشمنی کی عدو سے چاہ نہ کی
میں بھی کچھ خوش نہیں وفا کر کے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی
محتسب یہ ستم غریبوں پر
کبھی تنبیہ بادشاہ نہ کی
گریہ و آہ بے اثر دونوں
کس نے کشتی مری تباہ نہ کی
تھا مقدر میں اس سے کم ملنا
کیوں ملاقات گاہ گاہ نہ کی
دیکھ دشمن کو اٹھ گیا بے دید
میرے احوال پر نگاہ نہ کی
مومنؔ اس ذہن بے خطا پر حیف
فکر آمرزش گناہ نہ کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |