لگے خدنگ جب اس نالۂ سحر کا سا
Appearance
لگے خدنگ جب اس نالۂ سحر کا سا
فلک کا حال نہ ہو کیا مرے جگر کا سا
نہ جاؤں گا کبھی جنت میں میں نہ جاؤں گا
اگر نہ ہووے گا نقشہ تمہارے گھر کا سا
کرے نہ خانہ خرابی تری ندامت جور
کہ آب شرم میں ہے جوش چشم تر کا سا
یہ جوش یاس تو دیکھو کہ اپنے قتل کے وقت
دعائے وصل نہ کی وقت تھا اثر کا سا
لگے ان آنکھوں سے ہر وقت اے دل صد چاک
ترا نہ رتبہ ہوا کیوں شگاف در کا سا
ذرا ہو گرمی صحبت تو خاک کر دے چرخ
مرا سرور ہے گل خندۂ شرر کا سا
یہ ناتواں ہوں کہ ہوں اور نظر نہیں آتا
مرا بھی حال ہوا تیری ہی کمر کا سا
جنون کے جوش سے بیگانہ وار ہیں احباب
ہمارا حال وطن میں ہوا سفر کا سا
خبر نہیں کہ اسے کیا ہوا پر اس در پر
نشان پا نظر آتا ہے نامہ بر کا سا
دل ایسے شوخ کو مومنؔ نے دے دیا کہ وہ ہے
محب حسین کا اور دل رکھے شمر کا سا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |