ہو نہ بیتاب ادا تمہاری آج
Appearance
ہو نہ بیتاب ادا تمہاری آج
ناز کرتی ہے بے قراری آج
اڑ گیا خاک پر غبار اپنا
ہو گئی خاک خاکساری آج
نزع ہے اور روز وعدۂ وصل
ہے بہر طور دم شماری آج
مانع قتل کیوں ہوا دشمن
جان ہی جائے گی ہماری آج
تیرے آتے ہی دم میں دم آیا
ہو گئی یاس امیدواری آج
کوئی بھیجے ہے دل کو پہلو میں
کس نے کی اس سے ہمکناری آج
اس کے شکوہ سے ہے اثر ظاہر
کچھ تو کہتی ہے آہ و زاری آج
اک نئی آرزو کا خون ہوا
ہم ہیں اور تازہ سوگواری آج
چھٹ گئے مر کے نیش ہجراں سے
کام آئے ہے زخم کاری آج
بیکسی کیوں ہے نعش پر مجمع
کیا ہوئی تو مری پیاری آج
بھولے حضرت نصیحت اے ناصح
ہے کسی کی تو یادگاری آج
مومنؔ اس بت کو دیکھ آہ بھری
کیا ہوا لاف دیں داری آجی آج
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |