صبر وحشت اثر نہ ہو جائے
Appearance
صبر وحشت اثر نہ ہو جائے
کہیں صحرا بھی گھر نہ ہو جائے
رشک پیغام ہے عناں کش دل
نامہ بر راہبر نہ ہو جائے
دیکھو مت دیکھیو کہ آئینہ
غش تمہیں دیکھ کر نہ ہو جائے
ہجر پردہ نشیں میں مرتے ہیں
زندگی پردۂ در نہ ہو جائے
کثرت سجدہ سے وہ نقش قدم
کہیں پامال سر نہ ہو جائے
میرے تغییر رنگ کو مت دیکھ
تجھ کو اپنی نظر نہ ہو جائے
میرے آنسو نہ پونچھنا دیکھو
کہیں دامان تر نہ ہو جائے
بات ناصح سے کرتے ڈرتا ہوں
کہ فغاں بے اثر نہ ہو جائے
اے قیامت نہ آئیو جب تک
وہ مری گور پر نہ ہو جائے
مانع ظلم ہے تغافل یار
بخت بد کو خبر نہ ہو جائے
غیر سے بے حجاب ملتے ہو
شب عاشق سحر نہ ہو جائے
رشک دشمن کا فائدہ معلوم
مفت جی کا ضرر نہ ہو جائے
اے دل آہستہ آہ تاب شکن
دیکھ ٹکڑے جگر نہ ہو جائے
مومنؔ ایماں قبول دل سے مجھے
وہ بت آزردہ گر نہ ہو جائے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |