Jump to content

اگر غفلت سے باز آیا جفا کی

From Wikisource
اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
by مومن خان مومن
294903اگر غفلت سے باز آیا جفا کیمومن خان مومن

اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی

مرے آغاز الفت میں ہم افسوس
اسے بھی رہ گئی حسرت جفا کی

کبھی انصاف ہے دیکھا نہ دیدار
قیامت اکثر اس کو میں رہا کی

فلک کے ہاتھ سے میں جا چھپوں گر
خبر لا دے کوئی تحت الثرا کی

شب وصل عدو کیا کیا جلا ہوں
حقیقت کھل گئی روز جزا کی

چمن میں کوئی اس کو سے نہ آیا
گئی برباد سب محنت صبا کی

کشاد دل پہ باندھی ہے کمر آج
نہیں ہے خیریت بند قبا کی

کیا جب التفات اس نے ذرا سا
پڑی ہم کو حصول مدعا کی

کہا ہے غیر نے تم سے مرا حال
کہے دیتی ہے بیباکی ادا کی

تمہیں شور فغاں سے میرے کیا کام
خبر لو اپنی چشم سرمہ سا کی

دیا علم و ہنر حسرت کشی کو
فلک نے مجھ سے یہ کیسی دغا کی

غم مقصد رسی تا نزع اور ہم
اب آئی موت بخت نارسا کی

مجھے اے دل تری جلدی نے مارا
نہیں تقصیر اس دیر آشنا کی

جفا سے تھک گئے تو بھی نہ پوچھا
کہ تو نے کس توقع پر وفا کی

کہا اس بت سے مرتا ہوں تو مومنؔ
کہا میں کیا کروں مرضی خدا کی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.