وعدۂ وصلت سے دل ہو شاد کیا
وعدۂ وصلت سے دل ہو شاد کیا
تم سے دشمن کی مبارک باد کیا
کچھ قفس میں ان دنوں لگتا ہے جی
آشیاں اپنا ہوا برباد کیا
نالۂ پیہم سے یاں فرصت نہیں
حضرت ناصح کریں ارشاد کیا
ہیں اسیر اس کے جو ہے اپنا اسیر
ہم نہ سمجھے صید کیا صیاد کیا
شوخ بازاری تھی شیریں بھی مگر
ورنہ فرق خسرو و فرہاد کیا
نشۂ الفت سے بھولے یار کو
سچ ہے ایسی بے خودی میں یاد کیا
نالہ اک دم میں اڑا ڈالے دھوئیں
چرخ کیا اور چرخ کی بنیاد کیا
جب مجھے رنج دل آزاری نہ ہو
بے وفا پھر حاصل بیداد کیا
پانوں تک پہنچی وہ زلف خم بہ خم
سرو کو اب باندھئے آزاد کیا
کیا کروں اللہ سب ہیں بے اثر
ولولہ کیا نالہ کیا فریاد کیا
ان نصیبوں پر کیا اختر شناس
آسماں بھی ہے ستم ایجاد کیا
روز محشر کی توقع ہے عبث
ایسی باتوں سے ہو خاطر شاد کیا
گر بہائے خون عاشق ہے وصال
انتقام زحمت جلاد کیا
بت کدہ جنت ہے چلیے بے ہراس
لب پہ مومنؔ ہرچہ بادا باد کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |