اے آرزوئے قتل ذرا دل کو تھامنا
اے آرزوئے قتل ذرا دل کو تھامنا
مشکل پڑا مرا مرے قاتل کو تھامنا
تاثیر بیقراری ناکام آفریں
ہے کام ان سے شوخ شمائل کو تھامنا
دیکھے ہے چاندنی وہ زمیں پر نہ گر پڑے
اے چرخ اپنے تو مہ کامل کو تھامنا
مضطر ہوں کس کا طرز سخن سے سمجھ گیا
اب ذکر کیا ہے سامع عاقل کو تھامنا
ہو صرصر فغاں سے نہ کیونکر وہ مضطرب
مشکل ہوا ہے پردۂ محمل کو تھامنا
سیکھے ہیں مجھ سے نالۂ نے آسماں شکن
صیاد اب قفس میں عنادل کو تھامنا
یہ زلف خم بہ خم نہ ہو کیا تاب غیر ہے
تیرے جنوں زدے کی سلاسل کو تھامنا
اے ہمدم آہ تلخی ہجراں سے دم نہیں
گرتا ہے دیکھ جام ہلاہل کو تھامنا
سیماب وار مر گئے ضبط قلق سے ہم
کیا قہر ہے طبیعت مائل کو تھامنا
آغوش گور ہو گئی آخر لہولہان
آساں نہیں ہے آپ کے بسمل کو تھامنا
سینہ پہ ہاتھ دھرتے ہی کچھ دم پہ بن گئی
لو جان کا عذاب ہوا دل کو تھامنا
باقی ہے شوق چاک گریباں ابھی مجھے
بس اے رفوگر اپنی انامل کو تھامنا
مت مانگیو امان بتوں سے کہ ہے حرام
مومنؔ زبان بیہودہ سائل کو تھامنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |