انہیں عادت ہمیں لذت ستم کی
Appearance
انہیں عادت ہمیں لذت ستم کی
ادھر شمشیر ادھر تقدیر چمکی
کہوں کیا درد دل کب سے بڑھا ہے
نگاہ لطف تم نے جب سے کم کی
قدم چومیں گے تیرے ہو کے پامال
چلیں گے چال ہم نقش قدم کی
یہاں تک ان کے وعدے جھوٹ نکلے
قسم کو بھی ہوئی حاجت قسم کی
وہ زلف مشک بو بکھری ہوئی تھی
کھلی چوری نسیم صبح دم کی
یہاں تک ان کو پاس راز خط تھا
کہ خامے کی زباں پہلے قلم کی
زمیں پر اس ادا سے پاؤں رکھا
کہ آنکھیں کھل گئیں نقش قدم کی
کہاں پیری میں وہ روشن بیانی
زباں تو ہے چراغ صبح دم کی
کہاں ہم اور کہاں بخشش ہماری
جلیلؔ اک موج بھی ابر کرم کی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |