Author:جلیل مانکپوری
Appearance
جلیل مانکپوری (1866 - 1946) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- زمانہ ہے کہ گزرا جا رہا ہے
- ظالم بتوں سے آنکھ لگائی نہ جائے گی
- ضبط نالہ سے آج کام لیا
- یوں نہ ٹپکا تھا لہو دیدۂ تر سے پہلے
- یہ رنگ گلاب کی کلی کا
- یہ کہنا اس سے اے قاصد جو محو خود پرستی ہے
- یہ کہہ گیا بت ناآشنا سنا کے مجھے
- یہ جو سر نیچے کئے بیٹھے ہیں
- وصل میں وہ چھیڑنے کا حوصلہ جاتا رہا
- وصال یار بھی ہے دور میں شراب بھی ہے
- اٹھا ہے ابر جوش کا عالم لیے ہوئے
- اس کا جلوہ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
- انہیں عادت ہمیں لذت ستم کی
- ستم ہے مبتلائے عشق ہو جانا جواں ہو کر
- شباب ہو کہ نہ ہو حسن یار باقی ہے
- سخت نازک مزاج دلبر تھا
- رنگت یہ رخ کی اور یہ عالم نقاب کا
- راحت نہ مل سکی مجھے مے خانہ چھوڑ کر
- راز عشق اظہار کے قابل نہیں
- قاصد آیا مگر جواب نہیں
- قفس میں ہوں کہ طائر آشیاں میں
- قفس میں اشک حسرت پر مدار زندگانی ہے
- پلا ساقی بہار آئے نہ آئے
- نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں
- ناز کرتا ہے جو تو حسن میں یکتا ہو کر
- نیا سودا نیا درد نہانی لے کے آیا ہوں
- نہ خوشی اچھی ہے اے دل نہ ملال اچھا ہے
- مجھ کو تو مرض ہے بے خودی کا
- مفت میں توڑ کے رکھ دی مری توبہ تو نے
- محبت رنگ دے جاتی ہے جب دل دل سے ملتا ہے
- میری وحشت کا جو افسانہ بنایا ہوتا
- مری طرف سے یہ بے خیالی نہ جانے ان کو خیال کیا ہے
- مزے بیتابیوں کے آ رہے ہیں
- موجود تھے ابھی ابھی روپوش ہو گئے
- مرنے والے خوب چھوٹے گردش ایام سے
- مار ڈالا مسکرا کر ناز سے
- لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو
- کیا ملا تم کو مرے عشق کا چرچا کر کے
- کیا جلد دن بہار کے یارب گزر گئے
- کیا حنا خوں ریز نکلی ہائے پس جانے کے بعد
- کس قدر تھا گرم نالہ بلبل ناشاد کا
- کھو کے دل میرا تمہیں نا حق پشیمانی ہوئی
- کہوں کیا اضطراب دل زباں سے
- کہاں ہم اور کہاں اب شراب خانۂ عشق
- جھوم کر آج جو متوالی گھٹا آئی ہے
- جام جب تک نہ چلے ہم نہیں ٹلنے والے
- عصمت کا ہے لحاظ نہ پروا حیا کی ہے
- عشق اب میری جان ہے گویا
- حسن و الفت میں خدا نے ربط پیدا کر دیا
- حسن میں آفت جہاں تو ہے
- حسن کی لائی ہوئی ایک بھی آفت نہ گئی
- ہم تو قصوروار ہوئے آنکھ ڈال کے
- ہستی ہے عدم مری نظر میں
- ہاں جسے عاشقی نہیں آتی
- ہمارا دل وہ گل ہے جس کو زلف یار میں دیکھا
- ہائے دم بھر بھی دل ٹھہر نہ سکا
- ہائے دم بھر بھی دل ٹھہر نہ سکا
- گھٹا دیا رتبہ ہر حسیں کا مٹا دیا رنگ حور عین کا
- غیر الفت کا راز کیا جانے
- ایک دن بھی تو نہ اپنی رات نورانی ہوئی
- دن کی آہیں نہ گئیں رات کے نالے نہ گئے
- دل پر اس کاکل رسا کی چوٹ
- دل کے سب داغ کھلے ہیں گل خنداں ہو کر
- دل ہے اپنا نہ اب جگر اپنا
- دل گیا دل لگی نہیں جاتی
- دیدار کی ہوس ہے نہ شوق وصال ہے
- دیکھا جو حسن یار طبیعت مچل گئی
- چلے ہائے دم بھر کو مہمان ہو کر
- چل کر نہ زلف یار کو تو اے صبا بگاڑ
- چاہیئے دنیا نہ عقبیٰ چاہیئے
- چال ایسی وہ شوخ چلتا ہے
- بوئے مے پا کے میں چلتا ہوا مے خانے کو
- بن ترے کیا کروں جہاں لے کر
- بیٹھ جا کر سر منبر واعظ
- بہاریں لٹا دیں جوانی لٹا دی
- بہا کر خون میرا مجھ سے بولے
- بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی
- اور ان آنکھوں نے میرے دل کی حالت زار کی
- اپنے رہنے کا ٹھکانا اور ہے
- عکس ہے آئینۂ دہر میں صورت میری
- عجیب حسن ہے ان سرخ سرخ گالوں میں
- ادا ادا تری موج شراب ہو کے رہی
- اچھی کہی دل میں نے لگایا ہے کہیں اور
- ابھی سے آفت جاں ہے ادا ادا تیری
- اب کون پھر کے جائے تری جلوہ گاہ سے
- عاشقی کیا ہر بشر کا کام ہے
- آج تک دل کی آرزو ہے وہی
Some or all works by this author are now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |