راحت نہ مل سکی مجھے مے خانہ چھوڑ کر
Appearance
راحت نہ مل سکی مجھے مے خانہ چھوڑ کر
گردش میں ہوں میں گردش پیمانہ چھوڑ کر
خم میں سبو میں جام میں نیت لگی رہی
مے خانے ہی میں ہم رہے مے خانہ چھوڑ کر
آنکھوں کو چھوڑ جاؤں الٰہی میں کیا کروں
ہٹتی نہیں نظر رخ جانانہ چھوڑ کر
آتا ہے جی میں ساقئ مہ وش پہ بار بار
لب چوم لوں ترا لب پیمانہ چھوڑ کر
ہوتی کہاں ہے دل سے جدا دل کی آرزو
جاتا کہاں ہے شمع کو پروانہ چھوڑ کر
دو گھونٹ نے بڑھا دیے رندوں کے حوصلے
مینا و خم پہ جھک پڑے پیمانہ چھوڑ کر
پھر بوئے زلف یار نے آ کر ستم کیا
پھر چل دیا مجھے دل دیوانہ چھوڑ کر
یاد آئی کس کی آنکھ کہ رند اٹھ کھڑے ہوئے
پیمانہ توڑ کر مے و مے خانہ چھوڑ کر
دنیا میں عافیت کی جگہ ہے یہی جلیلؔ
جانا کہیں نہ گوشۂ مے خانہ چھوڑ کر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |