ہستی ہے عدم مری نظر میں
Appearance
ہستی ہے عدم مری نظر میں
سوجھی ہے یہ ایک عمر بھر میں
او آنکھ چرا کے جانے والے
ہم بھی تھے کبھی تری نظر میں
پھیلاتی ہے پاؤں حسرت دید
ٹھنڈک جو ملی ہے چشم تر میں
کوئی نہ حجاب کام آیا
دیکھا تو وہ تھے مری نظر میں
کم ظرف تھے سارے غنچہ و گل
کیا پھولے ہیں ایک مشت زر میں
اتنا بھی نہ ہو کوئی حیا دار
دیکھا تو سما گئے نظر میں
تارے یہ نہیں ہیں آخر شب
کچھ پھول ہیں دامن سحر میں
ہے عمر رواں کا شمع میں رنگ
گھر بیٹھے گزرتی ہے سفر میں
دنیا ہے جلیلؔ ہاتھ اٹھائے
بیٹھے ہیں کسی کی رہ گزر میں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |