ہاں جسے عاشقی نہیں آتی
Appearance
ہاں جسے عاشقی نہیں آتی
لذت زندگی نہیں آتی
جیسے اس کا کبھی یہ گھر ہی نہ تھا
دل میں برسوں خوشی نہیں آتی
جب سے بلبل اسیر دام ہوئی
کسی گل کو ہنسی نہیں آتی
سب شرابی مجھے کہیں تجھ کو
شرم اے بے خودی نہیں آتی
یوں تو آتی ہیں سیکڑوں باتیں
وقت پر ایک بھی نہیں آتی
سوچتا کیا ہے پی بھی لے زاہد
کچھ قیامت ابھی نہیں آتی
انتہا غم کی اس کو کہتے ہیں
زخم کو بھی ہنسی نہیں آتی
کوندتی ہے ہزار رنگ سے برق
پھر بھی شوخی تری نہیں آتی
صرف جب تک نہ خون دل ہو جلیلؔ
رنگ پر شاعری نہیں آتی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |