یہ جو سر نیچے کئے بیٹھے ہیں
Appearance
یہ جو سر نیچے کئے بیٹھے ہیں
جان کتنوں کی لیے بیٹھے ہیں
جان ہم سبزۂ خط پر دے کر
زہر کے گھونٹ پیے بیٹھے ہیں
دل کو ہم ڈھونڈتے ہیں چار طرف
اور یہاں آپ لیے بیٹھے ہیں
واعظو چھیڑو نہ رندوں کو بہت
یہ سمجھ لو کہ پیے بیٹھے ہیں
گوشے آنچل کے ترے سینے پر
ہائے کیا چیز لیے بیٹھے ہیں
دست وحشت کو خبر کر دے کوئی
ہم گریبان سیئے بیٹھے ہیں
ہائے پوچھو نہ تصور کے مزے
گود میں تم کو لیے بیٹھے ہیں
آپ کے ناز اٹھانے والے
جان کو صبر کیے بیٹھے ہیں
بل جبیں پر ہے خدا خیر کرے
آج وہ تیغ لیے بیٹھے ہیں
اس توقع پہ کہ لیں وہ تلوار
سر ہتھیلی پہ لیے بیٹھے ہیں
جان دے دیں گے تمہارے در پر
ہم اب اٹھنے کے لئے بیٹھے ہیں
ذکر کیا جام و سبو کا کہ جلیلؔ
ایک مے خانہ پیے بیٹھے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |