سخت نازک مزاج دلبر تھا
Appearance
سخت نازک مزاج دلبر تھا
خیر گزری کہ دل بھی پتھر تھا
مختصر حال زندگی یہ ہے
لاکھ سودا تھا اور اک سر تھا
ان کی رخصت کا دن تو یاد نہیں
یہ سمجھئے کہ روز محشر تھا
خاک نبھتی مری ترے دل میں
ایک شیشہ تھا ایک پتھر تھا
تم مرے گھر جو آنے والے تھے
کھولے آغوش صبح تک در تھا
ابر رحمت جو ہو گیا مشہور
کسی مے کش کا دامن تر تھا
جب انہیں شوق تھا سنورنے کا
ایک اک آئنہ سکندر تھا
آنسوؤں کی تھی کیا بساط مگر
دیکھتے دیکھتے سمندر تھا
کیسی آزاد زندگی ہے جلیلؔ
در دل پر جب اپنا بستر تھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |