حسن میں آفت جہاں تو ہے
Appearance
حسن میں آفت جہاں تو ہے
چال میں خنجر رواں تو ہے
دونوں ظالم ہیں فرق اتنا ہے
آسماں پیر ہے جواں تو ہے
بے کہے دل کا حال روشن ہے
اے خموشی مری زباں تو ہے
اپنے گھر میں خیال میں دل میں
ایک ہو کر کہاں کہاں تو ہے
دونوں جانب سے پردہ داری ہے
میں ہوں گمنام بے نشاں تو ہے
سب سے پیاری ہے جان دنیا میں
جان سے بڑھ کے جان جاں تو ہے
آئینے پر نہیں یہ چشم کرم
اپنی صورت کا قدر داں تو ہے
کیا برابر کا جوڑ ہے یہ جلیلؔ
یار نازک ہے ناتواں تو ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |