یہ کہنا اس سے اے قاصد جو محو خود پرستی ہے
یہ کہنا اس سے اے قاصد جو محو خود پرستی ہے
کہ تیرے دیکھنے کو آنکھ مدت سے ترستی ہے
بنے ہیں جب سے وہ ساقی مزے کی مے پرستی ہے
ادھر مے ہے پیالوں میں ادھر آنکھوں میں مستی ہے
تری آنکھوں کے صدقے ایک دنیا ان میں بستی ہے
فسوں ہے سحر ہے اعجاز ہے شوخی ہے مستی ہے
تباہی دل میں رہتی ہے خرابی دل میں بستی ہے
یہی آباد بستی ہے یہی ویران بستی ہے
نگاہوں سے ملاتا ہوں نگاہیں اس تمنا میں
وہ میرے دل میں آ جائے جو ان آنکھوں میں مستی ہے
وہ جنس دل کی قیمت پوچھتے ہیں میں بتاؤں کیا
یہی مہنگی سی مہنگی ہے یہی سستی سی سستی ہے
نہ صہبا ہے نہ ساغر ہے نہ مینا ہے نہ خم ساقی
مجھے جو مست کرتی ہے تری آنکھوں کی مستی ہے
ازل سے حق پرستی بت پرستی سنتے آتے ہیں
مگر یہ آپ کا مشرب نرالا خود پرستی ہے
جوانی نے دئے ہیں ان کو لا کر ہم نشیں کیا کیا
ادا میں ناز چتون میں حیا آنکھوں میں مستی ہے
مدار زندگی ٹھہرا نفس کی آمد و شد پر
ہوا کے زور سے روشن چراغ بزم ہستی ہے
تماشا ہے مری رندی کہ ساغر ہاتھ میں لے کر
ہر اک سے پوچھتا ہوں میں کہیں تھوڑی سی مستی ہے
فراق روح کیوں کر ہو گوارا جسم انساں کو
اجڑ کر پھر نہیں آباد ہوتی یہ وہ بستی ہے
وہ میکش ہوں کہ آتا ہے جو لب پر نام توبہ کا
تو مجھ پر جوش میں آ کر گھٹا کیا کیا برستی ہے
عجب شے جنس الفت ہے کہ دل جائے تو ہاتھ آئے
ہمیشہ ایک قیمت ہے نہ مہنگی ہے نہ سستی ہے
جبھی تک عکس قائم ہے کہ آئینہ مقابل ہو
ہماری یہ حقیقت ہے ہماری اتنی ہستی ہے
یقیں جانو کہ منہ دیکھی محبت ہم نہیں رکھتے
وہ آئینہ ہے جو وارفتۂ صورت پرستی ہے
بہت جھٹکے نہ دے دست جنوں جیب و گریباں کو
رہے تجھ کو لحاظ اس کا پرانا رخت ہستی ہے
دل عاشق میں حسرت بھی ہے ارماں بھی تمنا بھی
وہ جس بستی میں رہتے ہیں بڑی آباد بستی ہے
فنا اول بھی تھی آخر بھی ہونا ہے فنا ہم کو
کریں کیا دو عدم کے بیچ میں اک اپنی ہستی ہے
جلیلؔ استاد کا کہنا سنو باندھو کمر تم بھی
عجب بستی مدینہ ہے جہاں رحمت برستی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |