نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں
Appearance
نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
گنہ گنہ نہ رہا اتنی بادہ نوشی کی
اب ایک شغل ہے کچھ لذت شراب نہیں
ہمیں تو دور سے آنکھیں دکھائی جاتی ہیں
نقاب لپٹی ہے اس پر کوئی عتاب نہیں
پیے بغیر چڑھی رہتی ہے حسینوں کو
وہاں شباب ہے کیا کم اگر شراب نہیں
بہار دیتا ہے چھن چھن کے نور چہرے کا
سر نقاب ہے جو کچھ تہ نقاب نہیں
وہ اپنے عکس کو آواز دے کے کہتے ہیں
ترا جواب تو میں ہوں مرا جواب نہیں
اسے بھی آپ کے ہونٹوں کا پڑ گیا چسکا
ہزار چھوڑیئے چھٹنے کی اب شراب نہیں
بتوں سے پردہ اٹھانے کی بحث ہے بے کار
کھلی دلیل ہے کعبہ بھی بے نقاب نہیں
جلیلؔ ختم نہ ہو دور جام مینائی
کہ اس شراب سے بڑھ کر کوئی شراب نہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |