قفس میں ہوں کہ طائر آشیاں میں
Appearance
قفس میں ہوں کہ طائر آشیاں میں
ترا کرتے ہیں ذکر اپنی زباں میں
چمن یوں ہی رہے گا نذر صرصر
ہے اک تنکا بھی جب تک آشیاں میں
ہجوم اشک میں ملتا نہیں دل
مرا یوسف ہے گم اس کارواں میں
مذکر اور مؤنث کی ہیں بحثیں
بڑا جھگڑا ہے یہ اردو زباں میں
جلیلؔ اس باغ میں کانٹے کی صورت
کھٹکتا ہے نگاہ باغباں میں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |