مفت میں توڑ کے رکھ دی مری توبہ تو نے
Appearance
مفت میں توڑ کے رکھ دی مری توبہ تو نے
کام پتھر کا کیا شیشۂ صہبا تو نے
میں نے کی جامہ دری اور انہیں شکوہ ہے
کر دیا چاک مرے حسن کا پردا تو نے
کس قدر ہوش ربا ہے نگہ مست تری
اس کو دیکھا نہ سنبھلتے جسے دیکھا تو نے
تو نگاہوں میں تصور میں جگر میں دل میں
فائدہ کیا جو کیا آنکھ سے پردا تو نے
ہم نہ کہتے تھے نہیں طاقت دیدار جلیلؔ
کیا ہوا جلوہ گہہ ناز میں دیکھا تو نے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |