ہائے دم بھر بھی دل ٹھہر نہ سکا (I)
Appearance
ہائے دم بھر بھی دل ٹھہر نہ سکا
ہاتھ سینے پہ کوئی دھر نہ سکا
آئینہ کس سے دیکھا جاتا ہے
رشک کے مارے وہ سنور نہ سکا
رہ گیا آنکھ میں نزاکت سے
دل میں نقشہ ترا اتر نہ سکا
وسعت ظرف سے رہا محروم
جام میرا کسی سے بھر نہ سکا
اس جہاں سے گزر گئے لاکھوں
اس گلی سے کوئی گزر نہ سکا
مےکشی سے نجات مشکل ہے
مے کا ڈوبا کبھی ابھر نہ سکا
اشک جاری تھے یاد گیسو میں
رات بھر قافلہ ٹھہر نہ سکا
موسم گل میں بھی جلیلؔ افسوس
دامن اپنا گلوں سے بھر نہ سکا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |