اچھا جو خفا ہم سے ہو تم اے صنم اچھا
Appearance
اچھا جو خفا ہم سے ہو تم اے صنم اچھا
لو ہم بھی نہ بولیں گے خدا کی قسم اچھا
مشغول کیا چاہئے اس دل کو کسی طور
لے لیویں گے ڈھونڈ اور کوئی یار ہم اچھا
گرمی نے کچھ آگ اور بھی سینہ میں لگائی
ہر طور غرض آپ سے ملنا ہی کم اچھا
اغیار سے کرتے ہو مرے سامنے باتیں
مجھ پر یہ لگے کرنے نیا تم ستم اچھا
ہم معتکف خلوت بت خانہ ہیں اے شیخ
جاتا ہے تو جا تو پئے طوف حرم اچھا
جو شخص مقیم رہ دل دار ہیں زاہد
فردوس لگے ان کو نہ باغ ارم اچھا
کہہ کر گئے آتا ہوں کوئی دم کو ابھی میں
پھر دے چلے کل کی سی طرح مجھ کو دم اچھا
اس ہستئ موہوم سے میں تنگ ہوں انشاؔ
واللہ کہ اس سے بہ مراتب عدم اچھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |