Author:انشاء اللہ خان انشا
Appearance
انشاء اللہ خان انشا (1752 - 1817) |
اردو شاعر، ادیب |
تصانیف
[edit]نثر
[edit]شاعری
[edit]غزل
[edit]- زلف کو تھا خیال بوسے کا
- ضعف آتا ہے دل کو تھام تو لو
- زنہار ہمت اپنے سے ہرگز نہ ہاریے
- زمیں سے اٹھی ہے یا چرخ پر سے اتری ہے
- یہ نہیں برق اک فرنگی ہے
- یہ کیا کہ ان کے دل کو نہ زنہار توڑیئے
- یہ کس سے چاندنی میں ہم بہ زیر آسماں لپٹے
- یہ جو مجھ سے اور جنوں سے یاں بڑی جنگ ہوتی ہے دیر سے
- یاس و امید و شادی و غم نے دھوم اٹھائی سینہ میں
- یاں زخمیٔ نگاہ کے جینے پہ حرف ہے
- یا وصل میں رکھیے مجھے یا اپنی ہوس میں
- وہ پری ہی نہیں کچھ ہو کے کڑی مجھ سے لڑی
- وہ جو شخص اپنے ہی تاڑ میں سو چھپا ہے دل ہی کی آڑ میں
- وہ دیکھا خواب قاصر جس سے ہے اپنی زباں اور ہم
- اس بندہ کی چاہ دیکھئے گا
- تمہارے ہاتھوں کی انگلیوں کی یہ دیکھو پوریں غلام تیسوں
- ٹک قیس کو چھیڑ چھاڑ کر عشق
- ٹک اک اے نسیم سنبھال لے کہ بہار مست شراب ہے
- ٹک آنکھ ملاتے ہی کیا کام ہمارا
- تجھ سے یوں یک بار توڑوں کس طرح
- تو نے لگائی اب کی یہ کیا آگ اے بسنت
- توڑوں گا خم بادۂ انگور کی گردن
- ترک کر اپنے ننگ و نام کو ہم
- تفضلات نہیں لطف کی نگاہ نہیں
- تب سے عاشق ہیں ہم اے طفل پری وش تیرے
- شب خواب میں دیکھا تھا مجنوں کو کہیں اپنے
- سر چشم صبر دل دیں تن مال جان آٹھوں
- صاحب کے ہرزہ پن سے ہر ایک کو گلہ ہے
- صد برگ گہہ دکھائی ہے گہہ ارغواں بسنت
- پھبتی ترے مکھڑے پہ مجھے حور کی سوجھی
- پکڑی کسی سے جاوے نسیم اور صبا بندھے
- نیند مستوں کو کہاں اور کدھر کا تکیہ
- ناداں کہاں طرب کا سرانجام اور عشق
- نہ تو کام رکھیے شکار سے نہ تو دل لگائیے سیر سے
- مجھے کیوں نہ آوے ساقی نظر آفتاب الٹا
- مجھے چھیڑنے کو ساقی نے دیا جو جام الٹا
- میاں چشم جادو پہ اتنا گھمنڈ
- مل مجھ سے اے پری تجھے قرآن کی قسم
- مل گئے پر حجاب باقی ہے
- مل خون جگر میرا ہاتھوں سے حنا سمجھے
- لو فقیروں کی دعا ہر طرح آباد رہو
- لگ جا تو مرے سینہ سے دروازہ کو کر بند
- لب پہ آئی ہوئی یہ جان پھرے
- کیا ملا ہم کو تیری یاری میں
- کیا بھلا شیخ جی تھے دیر میں تھوڑے پتھر
- کنایہ اور ڈھب کا اس مری مجلس میں کم کیجے
- کاش ابر کرے چادر مہتاب کی چوری
- کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
- جو ہاتھ اپنے سبزے کا گھوڑا لگا
- جو بات تجھ سے چاہی ہے اپنا مزاج آج
- جس کو کچھ دھن ہو کرے ہم سے حقیقت کی بحث
- جی چاہتا ہے شیخ کے پگڑی اتارئیے
- جاڑے میں کیا مزہ ہو وہ تو سمٹ رہے ہوں
- جب تک کہ خوب واقف راز نہاں نہ ہوں
- حضرت عشق ادھر کیجے کرم یا معبود
- ہیں جو مروج مہر و وفا کے سب سر رشتے بھول گئے
- ہے ترا گال مال بوسے کا
- ہے مجھ کو ربط بسکہ غزالان رم کے ساتھ
- ہے جس میں قفل خانۂ خمار توڑیئے
- گلی سے تیری جو ٹک ہو کے آدمی نکلے
- گالی سہی ادا سہی چین جبیں سہی
- گاہے گاہے جو ادھر آپ کرم کرتے ہیں
- فقیرانہ ہے دل مقیم اس کی رہ کا
- ایک دن رات کی صحبت میں نہیں ہوتے شریک
- دیوار پھاندنے میں دیکھوگے کام میرا
- دل ستم زدہ بیتابیوں نے لوٹ لیا
- دھوم اتنی ترے دیوانے مچا سکتے ہیں
- دیکھنا جب مجھے کر شان یہ گالی دینا
- دس عقل دس مقولے دس مدرکات تیسوں
- چھیڑنے کا تو مزہ جب ہے کہو اور سنو
- چاہتا ہوں تجھے نبیؐ کی قسم
- بھلے آدمی کہیں باز آ ارے اس پری کے سہاگ سے
- بستی تجھ بن اجاڑ سی ہے
- بنک کی جلوہ گری پر غش ہوں
- بندگی ہم نے تو جی سے اپنی ٹھانی آپ کی
- بات کے ساتھ ہی موجود ہے ٹال ایک نہ ایک
- اشک مژگان تر کی پونجی ہے
- امرد ہوئے ہیں تیرے خریدار چار پانچ
- اچھا جو خفا ہم سے ہو تم اے صنم اچھا
- آنے اٹک اٹک کے لگی سانس رات سے
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |