Jump to content

ٹک اک اے نسیم سنبھال لے کہ بہار مست شراب ہے

From Wikisource
ٹک اک اے نسیم سنبھال لے کہ بہار مست شراب ہے
by انشاء اللہ خان انشا
294575ٹک اک اے نسیم سنبھال لے کہ بہار مست شراب ہےانشاء اللہ خان انشا

ٹک اک اے نسیم سنبھال لے کہ بہار مست شراب ہے
وہ جو حسن عالم نشہ ہے اسے اب کی عین شباب ہے

وہ گھٹائیں چھائیں جو کالیاں جو ہری بھری ہوئیں ڈالیاں
ابھر آئیں پھولوں کی لالیاں تو بجائے آب شہاب ہے

یہ دو روزہ نشو و نما کو تو نہ سمجھ کہ نقش پر آب سے
یہ سراب ہے یہ حباب ہے فقط ایک قصۂ خواب ہے

عرق بہار شراب ہے وہ ہی آج چھڑکیں گے آپ پر
نہ تو بید مشک ہے اس گھڑی نہ تو کیوڑا نہ گلاب ہے

انہیں کہنے سننے سے بیر ہے جو خود آئیں سو تو بخیر ہے
یہ غرض کہ زور ہی سیر ہے نہ سوال ہے نہ جواب ہے

کدھر آؤں جاؤں کروں سو کیا مرا جی ہی ناک میں آ گیا
نہ تو عرض حال کی تاب ہے نہ تو صبر خانہ خراب ہے

مجھے وحش و طیر سے رشک ہے کہ کبھی انہوں کو کسی نمط
نہ سوال ہے نہ جواب ہے نہ عذاب ہے نہ عقاب ہے

مری بات مان سنا دلا نہ تو عرض و فرض پہ جی چلا
کوئی ان کو ٹوکے سو کیا بھلا کہ وہ عالی ان کی جناب ہے

ارے انشاؔ اب جو یہ دور ہے تری وضع ان دنوں اور ہے
یہ بھی کوئی زیست کا طور ہے نہ شراب ہے نہ کباب ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.