ٹک قیس کو چھیڑ چھاڑ کر عشق
Appearance
ٹک قیس کو چھیڑ چھاڑ کر عشق
لپٹا مجھے پنجے جھاڑ کر عشق
خم ٹھونک مری ہوا مقابل
فرہاد کو دوں پچھاڑ کر عشق
آیا کج و وا کج اس طرف کو
وامق کا گھر اجاڑ کر عشق
بے فوج سرشک و پرچم آہ
جھپٹا یوں بھیڑ بھاڑ کر عشق
القصہ سبھوں کے ہو مقابل
پہونچا اب ہم کو تاڑ کر عشق
تا دامن کوہ کھینچ لایا
جنگل میں انہوں کو گاڑ کر عشق
ہم عشق اللہ بولے تو بھی
چنگھاڑ کے آئے پھاڑ کر عشق
ہے ہے انشاؔ ہمارے دل کو
بے طرح گیا لتاڑ کر عشق
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |